۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
22 مئی، یوم تاسیس آئی ایس او پاکستان

حوزہ/ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنے وصیت نامہ میں اپنے پانچ دوستوں کو نوجوانوں کیلئے اپنے امور میں "وصی" قرار دیا، لیکن زمانہ کی ستم ظریفی کہ اس شہید کے شاگرد ہی شہید کی اس آخری وصیت سے نابلد رہے۔

تحریر: سید میثم ہمدانی

حوزہ نیوز ایجنسی ارشاد باری تعالیٰ ہے: "قُلْ اِنَّمَاۤ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍۚ-اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَ فُرَادٰى"، "کہہ دیجئے کہ بیشک میں تمہیں صرف ایک ہی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کیلئے قیام کرو (ڈٹ جاؤ) دو، دو ہو کر یا اکیلے اکیلے۔" آج سے تقریباً آدھی صدی قبل کچھ پاک طینت اور مخلص نوجوانوں نے اس ارشاد باری تعالیٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے ملت کی تعمیر و ترقی کا بیڑا اٹھایا اور آج 49 سال گذرنے کے بعد ہمارے ملک عزیز میں بعض سیاسی رہبران "بوجوہ" جس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں، وہ ان نوجوانوں نے کئی دہائیاں قبل ہی اپنے پیرو مرشد حضرت امام امت سید روح اللہ خمینی رحمت اللہ علیہ کی بابصیر قیادت کی راہنمائی سے فیض حاصل کرتے ہوئے قوم کے سامنے رکھ دیا تھا اور وہ تھا "مردہ باد امریکہ۔" جس زمانہ میں سیاستدانوں کی فکر کے پرندے برطانیہ سے اڑ کر امریکہ تک ہی پرواز کرتے تھے اور جن کو اپنے مسائل کا حل نیوورلڈ آرڈر میں نظر آتا تھا، اس زمانے میں ان مٹھی بھر مخلص اور دیندار نوجوانوں نے سپرپاور کے نمائندہ صدر کے سامنے کھڑے ہو کر مردہ باد امریکہ کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور قوم و ملت کو اس طرف متوجہ کیا کہ تمہارے تمام مسائل کا حل اس استکباری نظام سے رہائی میں ہے۔

آج جب ہم 2022ء کی 23 مئی کو اس کاروان کی تشکیل کے دن ان یادوں کو تازہ کرنے کی بات کر رہے ہیں تو اس عرصہ میں بہت کچھ بدل چکا ہے، وہ اخلاص، وہ بے باکی، وہ خود باوری، وہ خودی۔۔۔۔۔ کسی دیرینہ افسانہ کی مانند لگتی ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کی تاسیس سے لیکر آج تک کے جدید دور تک بہت سے نشیب و فراز آئے ہیں لیکن الحمدللہ آج بھی یہ قافلہ عاشقاں اپنے انہی نعروں، شعار اور فکر کے ساتھ اپنے راستہ پر چلنے کا عزم بالجزم رکھتا ہے۔ اگر تاسیس کے ایام سے لیکر اس کاروان کے عروج تک کے زمانے میں ایک نوجوان، محمد علی نقوی کے نام سے اپنا کردار دکھائی دیتا ہوا نظر آتا ہے تو آج اس کاروان کی بقا میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا خون اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا نام آئی ایس او پاکستان کے ساتھ اجین ہوگیا ہے۔ آپ کا کام، آپ کی زندگی، آپ کے افکار، آپ کی فعالیت گویا یہی سب کچھ ہے، جس نے ان خام ہیروں کو تراش کر آئی ایس او کے نوجونواں کی شکل میں ایک نظریاتی اور الہی کاروان کی شکل دی کہ جو فکر امام و شہید حسینی کو اپنا مرکز و محور بنا کر آج بھی دنیا میں جہاں کہیں موجود ہیں، کسی نہ کسی انداز سے اپنی فعالیت کو جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی فعال زندگی اور آپ کی کی انتھک شخصیت کی تربیت کا اثر ہے کہ آج بھی آپ کے شاگرد اپنی فعالیت اور اپنے کردار میں اپنے آپ کو جوان محسوس کرتے ہیں۔

ہم اپنے اس مقالہ میں افکار شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی روشنی میں کاروان امامیہ کے حوالے سے دو چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے کہ جن میں پہلی بات "فکر کاروان" کی بات ہے۔ جب بھی کسی معاشرتی فعالیت کی بات ہوتی ہے تو ہمارے سامنے چند نمونے قرار پاتے ہیں کہ کس طرح کسی معاشرے میں کام کیا جائے؛ ان تمام نمونوں میں دو بنیادی ماڈلز ہیں؛ ایک ماڈل "نہضتی" طریقہ کار ہے اور دوسرا ماڈل "مغربی پارٹی ازم" ہے۔ مختصر انداز میں نہضت یا تحریک یا تنظیم یا منظم جدوجہد درحقیقت اس جہد مسلسل کا نام ہے کہ جس میں کچھ بلند و بالا اہداف اور مقدس مقاصد کا حصول درکار ہوتا ہے۔ ان اہداف کے حصول کیلئے فرعی مسائل پر کم ترین انرجی خرچ کرکے اپنے اہداف کی جانب تیزی سے سفر جاری رکھا جاتا ہے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا راستہ بھی یہی راستہ ہے۔ آپ اپنے وصیت نامہ میں بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں اور اپنی زندگی میں بھی ہمیشہ "کاروان خمینی" میں شامل ہونے کو اپنی آرزو قرار دیتے ہیں۔ آپ شہید قائد سید عارف حسین الحسینی (رہ) کے ساتھ اسی فکر و نظریہ کے تحت اپنی زندگی کے بہترین ایام اس راستہ کیلئے وقف کر دیتے ہیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے آئی ایس او کی تربیت بھی انہیں نکات اور انہی خطوط پر استوار رہتے ہوئے کی۔ آپ ہمیشہ نوجوانوں کو شہرت و مادی دلچسپی، مقام و منزلت، عہدہ و القاب جیسے فرعی مسائل سے اجتناب کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ان کو انجام دینے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ آپ کا یہ جملہ معروف ہے کہ "ذمہ داری کچھ بھی نہیں، احساس ذمہ داری ہی سب کچھ ہے۔" یہ وہی نہضتی طریقہ ہے، یہ وہی تحریک اور جہد مسلسل ہے، جس میں اہداف مقدس ہیں، جس میں اپنی منزل کی جانب گامزن رہنا مقدس ہے، جس میں معاشرے کی ترقی اور اپنے ماحول کو ان بنیادوں پر استوار کرنا اہم کہ جو ایک مومن کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

جبکہ اس کے مقابلے میں "مغربی پارٹی ازم" ہے، یہ بھی رائج طریقہ کار ہے، یہ طریقہ کار مغرب کے افکار و نظریات کا شاہکار ہے، اس طریقہ کار میں بنیادی نقطہ و محور عہدے، القاب، شہرت، عوام پسند نعرے، رائج سیاسی حربوں کا استعمال اور میکاؤلی کی سیاست کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اس طرز تفکر میں اصل ہدف طاقت کا حصول ہے، یہ طرز تفکر اپنے خاص ماحول اور اپنی خاص ثقافت کے ہمراہ محدود نتائج اور محدود طرز عمل کے ساتھ محدود اہداف کے حصول کا نتیجہ دیتا ہے۔ اس طریقہ میں خاص ماحول کو اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس راستہ میں انہی اہداف و مقاصد کو اپنا نصب العین بنایا جا سکتا ہے، جو اس پیراڈائم میں شامل ہو، اس طرز تفکر میں "تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر" کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ یہاں پر "پارٹی ڈسپلن" اور "شوکاز نوٹس" کی ثقافت قائم ہوتی ہے، اس راستہ میں اہداف مقدس نہیں ہوتے بلکہ راستہ مقدس ہوتا ہے۔

خلاصہ، یہ وہ راستہ نہیں ہے کہ جس کو ان مخلص نوجونواں نے اپنے کاروان عشق کیلئے انتخاب کیا تھا، یہ وہ فکر نہیں ہے کہ جس کو ان نوجوانوں نے کاروان خمینی میں شامل ہونے کیلئے اپنے لئے چنا تھا، آج بھی ضرورت اسی جذبہ و ایمان اور اسی فکر کو اپنانے کی ہے کہ جو اسلاف نے اپنائی تھی اور اپنے شعور کے ساتھ ایسے راستے کا انتخاب کیا تھا کہ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا اور یہ راہ حق کا مسافر کبھی ایجوکیشنل سسٹم کو قائم کرنے میں مصروف ہے تو کبھی قوم کی حفاظت کی فکر اس کو کھائے جاتی ہے اور کبھی قوم کی فلاح و بہبود کیلئے شب و روز محنت کرتا نظر آتا ہے، یہاں تک کہ وہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بن کر اپنے خون سے اپنے راستہ کی گواہی دے جاتا ہے۔

دوسری بات اس کاروان حق کے روز تاسیس جس بات کا شدت سے احساس کیا جاسکتا ہے، وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے بعد اس کاروان کی طوفانوں میں گھری کشتی کا مسئلہ ہے۔ جس طرح سے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی زندگی کے اندر اپنی بےلوث اور انتھک کوششوں سے امامیہ کاروان کو اپنے اہداف کی طرف متوجہ رکھنے کی سعی کرتے رہے، جس طرح شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے نوجوانوں کو شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد احساس یتیمی نہیں ہونے دیا، آپ کی شہادت کے بعد آج یہ کاروان ان مشکلات کا شکار ہے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنے وصیت نامہ میں اپنے پانچ دوستوں کو نوجوانوں کیلئے اپنے امور میں "وصی" قرار دیا، لیکن زمانہ کی ستم ظریفی کہ اس شہید کے شاگرد ہی شہید کی اس آخری وصیت سے نابلد رہے۔ شہید نے اپنے جن معتمد دوستوں کو ان امور کے حوالے سے گویا یہ ذمہ داری عطا کی تھی، آج الحمدللہ وہ قید حیات ہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ کل جب وہ شہید کے سامنے قرار پائیں تو اپنے لئے اس جواب کو تیار رکھیں کہ جس پر ان کو یہ نہ سننا پڑے کہ "بندہ خدا، آپ کا بہانہ درست نہیں ہے۔" یہ ان پانچوں دوستوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس شجرہ طیبہ کی بقاء، اس کی نجات اور اس کے مثمر ثمر ہونے کے لئے اپنا مفید کردار ادا کریں اور اس حکم ربانی کو مدنظر رکھیں: "اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَ فُرَادٰى۔"

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .